میں نے موہنجو ڈارو دیکھا
میں نے ہڑپہ دیکھا ہے
کیسا عجب زمانہ تھا وہ
زیادہ تو معلوم نہیں
لیکن ان گلیوں میں پھر کر
یہ تو سمجھ میں آتا ہے
لوگ اکٹھے رہتے تھے اور
سارے مل کر کھاتے تھے
کھیت میں ہل چلانے والا
کاریگر ہو یا ہو کاما
سب کے گھر اک جیسے تھے
ہر گھر کا دالان تھا اور
ہر گھر کا دروازہ تھا
گھر کے باہر نالی تھی
اس کے اوپر جالی تھی
اس میں تھی نہ کوئی مسجد
اور نہ کوئی مندر تھا
اس میں کوئی محل نہیں تھا
لڑنے کے ہتھیار نہیں تھے
اسلحہ کا گودام نہیں تھا
کھیتی باڑی ہوتی تھی اور
خوب تجارت ہوتی تھی
راوی سندھ سے بحری بیڑے
بحرِ عرب سے ہوتے ہوتے
دجلہ فرات کو جاتے تھے
میسوپوٹیما کے باسی
ان کو ملوہا کہتے تھے
کتنے ہزاروں سال پرانا
ایسے لگتا ہے کہ شاید
صدیوں بعد بھی نہ آ پائے
ایسا تھا وہ عجب زمانہ
یورش یا یلغار کوئی تھی
کیسے اُجڑ گیا وہ دور
دریاوں نے رستے بدلے
یا قسمت نے موڑا موڑ
شاید اک دن ایسا آئے
یہ عقدہ بھی حل ہو جائے
میرے جنینی دھاگوں میں
میرے وسیب میں مجھ سے پہلے
رہنے والے
جن پرکھوں کی تاریں ہیں
اپنی کہانی کا کچھ حصہ
وہ تو لکھ کر چھوڑ گئے ہیں
میں ہی ایسا ان پڑھ ہوں
جو بولی وہ بول گئے ہیں
میں وہ بول نہیں سکتا
جو گانٹھیں وہ جوڑ گئے ہیں
میں وہ کھول نہیں سکتا
میں جانوں کہ میرا ان سے
کیا ناطہ ہے
مجھ کو اس ضرورت کا
بالکل نہ ادراک ہوا
حیف ہے مجھ پہ
مجھ کو ان سے
اپنی کوئی نسبت کا
بالکل نہ احساس ہوا
ناصر گوندل
حلقہِ اربابِ ذوق، نیو یارک
ہفتہ، ۲ اگست، ۲۰۲۵ء
No comments:
Post a Comment