Thursday, January 28, 2021

توبه نصوح (Tobatun Nashu- Origin of the story)

I always knew "Tobatun-Nashu" as a novel of Deputy Nazir Ahmad but one highly literate friend told me that it was originally described by Rumi. I wish I had time to translate... Alas! never-ending COVID work at the hospital

 

 نصوح کون تھا....!         

 

نصوح ایک عورت نما آدمی تھا، باریک آواز، بغیر داڑھی اور نازک اندام مرد.

وہ اپنی ظاہری شکل وصورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زنانہ حمام میں عورتوں کا مساج کرتا اور میل اتارتا تھا۔ کوئی بھی اسکی حقیقت نہیں جانتا تھا سبھی اسے عورت سمجھتے تھے۔ یہ طریقہ اسکے لئے ذریعہ معاش بھی تھا اور عورتوں کے جسم سے لذت بھی لیتا تھا۔ کئی بار ضمیر کے ملامت کرنے پر اس نے اس کام سے توبہ بھی کرلی لیکن ہمیشہ توبہ توڑتا رہا.

ایک دن بادشاہ کی بیٹی حمام گئی ۔حمام اور مساج کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اسکا گراں بہا گوھر
 (موتی یا ہیرا) کھوگیا ہے
بادشاہ کی بیٹی نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے۔
سب کی تلاشی لی گئی ہیرا نہیں ملا 
نصوح رسوائی کے ڈر سے ایک جگہ چھپ گیا۔ 
جب اس نے دیکھا کہ شہزادی کی کنیزیں اسے ڈھونڈ رہی ہیں تو
سچے دل سے خدا کو پکارا اور خدا کی بارگاہ میں دل سے توبہ کی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا،  میری لاج رکھ لے مولا۔

دعا مانگ ہی رہا تھا کہ اچانک باہر سے آوازسنائی دی کہ نصوح کو چھوڑ دو، ہیرا مل گیا ہے۔

نصوح نم آنکھوں سے شہزادی سے رخصت لے کر گھر آگیا ۔
نصوح نے قدرت کا کرشمہ دیکھ لیا تھا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کام سے توبہ کرلی۔

کئی دنوں سے حمام نہ جانے پر ایک دن شہزادی نے بلاوا بھیجا کہ حمام آکر میرا مساج کرے لیکن نصوح نے بہانہ بنایا کہ میرے ہاتھ میں درد ہے میں مساج نہیں کرسکتا ہوں۔

نصوح نے دیکھا کہ اس شہر میں رہنا اس کے لئے مناسب نہیں ہے سبھی عورتیں اس کو چاہتی ہیں اور اس کے ہاتھ سے مساج لینا پسند کرتی ہیں۔

جتنا بھی غلط طریقے سے مال کمایا تھا سب غریبوں میں بانٹ دیا اور شہر سے نکل کر کئی میل دور ایک 
پہاڑی پر ڈیرہ ڈال کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔

 ایک دن اس کی نظر ایک بھینس پر پڑی جو اس کے قریب گھاس 
چر رہی تھی۔  
اس نے سوچا کہ یہ کسی چرواہے سے بھاگ کر یہاں آگئی ہے ،  جب تک اس کا مالک نہ آ جائے تب تک میں اس کی دیکھ بھال کر لیتا ہوں،
لہذا اس کی دیکھ بھال کرنے لگا۔

کچھ دن بعد ایک تجارتی قافلہ راستہ بھول کر ادھر آگیا جو سارے پیاس کی شدت سے نڈھال تھے
انہوں نے نصوح سے پانی مانگا 
نصوح نے سب کو بھینس کا دودھ پلایا اور سب کو سیراب کردیا،

قافلے والوں نے نصوح سے شہر جانے کا راستہ پوچھا 
نصوح نے انکو آسان اور نزدیکی راستہ دیکھایا ۔
نصوح کے اخلاق سے متاثر ہو کر تاجروں نے جاتے ہوئے اسے بہت سارا مال بطور تحفہ دیا۔

نصوح نے ان پیسوں سے وہاں کنواں کھدوا دیا۔

آہستہ آہستہ وہاں لوگ بسنے لگے اور عمارتیں بننے لگیں۔ 
وہاں کے لوگ نصوح کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 

رفته رفته نصوح کی نیکی کے چرچے بادشاه تک جا پہنچے۔
بادشاہ کی دل میں نصوح سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔
اس نے نصوح کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے دربار تشریف لے آئیں۔

جب نصوح کو بادشاہ کا پیغام ملا اس نے ملنے سے انکار کر دیا اور معذرت چاہی کہ مجھے بہت سارے کام ہیں میں نہیں آسکتا، 
بادشاہ کو بہت تعجب ہوا مگر اس بے نیازی کو دیکھ کر ملنے کی طلب اور بڑھ گئی۔ بادشاہ  نے کہا کہ اگر نصوح نہیں آسکتے تو ہم خود اس کے پاس جائیں گے۔

جب بادشاہ نصوح کے علاقے میں داخل ہوا، خدا کی طرف سے ملک الموت کو حکم ہوا کہ بادشاہ کی روح قبض کرلے۔

چونکہ بادشاہ بطور عقیدت مند نصوح کو ملنے آرہا تھا اور رعایا بھی نصوح کی خوبیوں کی گرویدہ تھی، اس لئے  نصوح کوبادشاہ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

نصوح نے اپنے ملک میں عدل اور انصاف کا نظام قائم کیا۔ وہی شہزادی جسے عورت کا بھیس بدل کر ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتا تھا ،اس شہزادی نے نصوح سے شادی کرلی۔

ایک دن نصوح دربار میں بیٹھا لوگوں کی داد رسی کررہا تھا کہ 
ایک شخص وارد ہوا اور کہنے لگے کہ کچھ سال پہلے میری بھینس گم ہوگئی تھی ۔ بہت ڈھونڈا مگر نہیں ملی ۔ برائے مہربانی میری مدد فرمائیں۔ 

نصوح نے کہا کہ تمہاری بھینس میرے پاس ہے 
آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ تمہاری بھینس کی وجہ سے ہے 

نصوح نے حکم دیا کہ اس کے سارے مال اور دولت کا آدھا حصہ بھینس کے مالک کو دیا جائے۔

وہ شخص خدا کے حکم سے کہنے لگا:
اے نصوح جان لو، نہ میں انسان ہوں اور نہ ہی وہ جانور بھینس ہے۔
بلکہ ہم دو فرشتے ہیں تمہارے امتحان کے لئے آئے تھے  
یہ سارا مال اور دولت تمہارے سچے دل سے توبہ کرنے کا نتیجہ ہے
یہ سب کچھ تمہیں مبارک ہو،
وہ دونوں فرشتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ 

اسی وجہ سے سچے دل سے  توبہ کرنے کو (توبه نصوح) کہتے ہیں. تاریخ کی کتب میں نصوح کو بنی اسرائیل کے ایک بڑے عابد کی حیشیت سے لکھا گیا ہے۔ 

کتاب: مثنوی معنوی، دفتر پنجم
انوار المجالس صفحہ 432۔ (اخذ مولانا جلال الدین رومی)

Friday, January 22, 2021

Practical and non-miraculous aspect of Muhammad's life

 Following is the write-up from a Pakistani physician Dr. Rao Kamran Ali. It created some waves on Facebook and lot of flakes were send his way. I am not trying to take a side but I do think his thoughts make sense. Read and make your own judgement.

عمل اور عشق

رسول کریم صل الله عليه وسلم نے چالیس سال کی عمر میں اسلام کی تبلیغ شروع کی اور تریسٹھ سال کی عمر میں مکمل فرما دیا۔ یہ تیئس سال کا عرصہ ہے جس میں کوئی معجزہ نہیں، کوئی عقل سے بالاتر کام نہیں (معراج کے واقعہ کے حوالے سے میں غامدی صاحب کی رائے سے متفق ہوں) کوئی لمحہ عشق کے نام پر ضائع نہیں۔عمل ہے، محنت ہے، مشقت ہے، جنگیں ہیں، بھوک پیاس ہے، چوٹیں ہیں تکلیفیں ہیں۔جدائیاں ہیں۔

ایک بچہ جو نبی کریم کی سنت کی مطابق لوگوں کے درد دور کرنا چاہتا ہے، مدد کرنا چاہتا ہے، شفا دینا چاہتا ہے؛ بارہ سال مسلسل محنت کرکے اسکول اور کالج میں بہترین کارکردگی دکھا کر پانچ سال میں ایم بی بی ایس اور چھ سال میں اسپیشلائزیشن مثلاً کارڈیالوجسٹ یا سرجن بنتا ہے۔ اس راستے میں بہت سے مسائل آتے ہیں، فیس کی کمی ہے، تکلیفیں ہیں، نروس بریک ڈاؤن ہے، مقصد کے حصول کے لئے چھوڑی گئیں ادھوری محبتیں ہیں; لیکن تیئس سال میں بننے والا شاہکار عملیت کی سنت کی راہ پر چلتا اپنی زندگی میں ہزاروں جانیں بچاتا ہے۔

دوسری جانب، عمل کی مشکل سنت سے بے پرواہ ؛ خود ساختہ عشق کے نام پر داڑھی بڑھا کر، شلوار ٹخنوں سے اونچی کرکے کوئی کلونجی کی بوری لیکر بیٹھ جاتا ہے اور دوکان کے اوپر (ضعیف ) حدیث لکھ دیتا ہے، “کلونجی میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے”!!!!

Saturday, January 09, 2021

Life is not about happiness

 What an important lesson, Life is a higher calling than attaining happiness!

Wednesday, January 06, 2021

Mera Lahore

(Received as a forward. A true account written by Dr. Naeem Siddiqui at California)

It was the last show ending at midnight. Three of us just left the Regal Cinema after we enjoyed our last movie together. Our lives were in limbo. Dreams, fear, and uncertainty of the future were clouding souls. We all wanted to do something big but did not know what that big thing was? I had just finished my medical school and Ahmad wanted to go to NCA, just wanted to see girls. Anis had finished his BSc in Physics. His father had passed away and he inherited this tea stall at the corner of Mall Road near Pak Tea House. We had one bicycle and had to go to Sanda. Two of us got on the bike and the third one had to push it to turn by turn. It was midnight and Mall Road was lonely except for three shadows on a bike. We made it to his home and had to feed ourselves. Not much to eat except leftover beans and few naans. The food was cold but we were hungry. Anis was always quiet and never shared his thoughts except to crack a joke occasionally. I had my dream to come to America and for me all that mattered. 

America America! why are you so far? 

Early in the morning, we headed to our homes to face another day of hope and a foggy future. I wanted something to happen but time was indifferent to my plight and plans. I had a dark moment hanging over my head like a swarm of bees. I needed money and that is something I had never my life. I used to live like a prince at Nishtar with a nonstop supply of books to boots and socks to sweaters from England where father was working in a steel factory, night shift to earn more for our education. I had graduated and wasn’t going’s to ask my father to bail me out. 

The next day was another day with Anis and Ahmad for our midnight ritual. It was midnight and dark and I could hide my face or at least I thought so. Anis, I am very ashamed but I need your help. I need some money. With batting an eye he handed me all that he had earned that day selling tea in hot summer next to a kerosene stove. 400 Rupees and that is all he had. A few months later I left Lahore not to return for another 10 years. 

Life has its own plans overriding ours. I had to find Anis but his brother had taken over the tea stall he was not in contact with Anis. I lost Anis and Ahmed had gone to Germany. Back to NY and the endless brutal fight to survive and succeed in a residency had consumed my time and life and I forgot Anis. Another ten years filtered through my palm like dry sand. I had to find Anis but he fell off the face of the earth. 

In my rare moments of solitude, I kept his kindness alive and finally, I found him. 

He was married and had a daughter, doing odd jobs in Lahore. Hello Anis,,,, this is Naeem. I owe you some money. I don’t remember, he said. But I do and told him about midnight escapes and watching the Movie Collector. I am paying you back and I don’t have words to say what I want to say. 

That is what friends do for friends. You owe me nothing. 

That is the Lahore ... My Lahore. 

PS:  The Tea Stall is still there on the mall next to Pak Tea House. It is bonded.

Saturday, January 02, 2021

On Origin of name Nehru

How the surname Kaul became Nehru is best explained by Frank Moraes in his book, 'Jawaharlal Nehru A Biography': “We were Kashmiris". 

"Over two hundred years ago, early in the eighteenth century, our ancestor came down from that mountain valley to seek fame and fortune in the rich plains below. Those were the days of the decline of the Moghal Empire after the death of Aurungzeb, and Farrukhsiar was the Emperor. Raj Kaul was the name of that ancestor of ours and he had gained eminence as a Sanskrit and Persian scholar in Kashmir. He attracted the notice of Farrukhsiar during the letter’s visit to Kashmir, and, probably at the Emperor’s instance, the family migrated to Delhi, the imperial capital, about the year 1716. A jagir with a house situated on the banks of a canal had been granted to Raj Kaul, and, from the fact of this residence, ‘Nehru’ (from nahar, a canal) came to be attached to his name. Kaul had been the family name; this changed to Kaul-Nehru; and, in later years, Kaul dropped out and we became simply Nehrus.”

Friday, January 01, 2021

Songs of Blue Whales in Indian Ocean

 "Not much is known about blue whale songs, although most researchers think that they help males woo their mates, as is the case with closely-related species. That can make any modifications to a cetacean melody fairly high stakes, Dr. de Vos said: “If two populations can’t talk to each other, over time, they’re going to grow apart.”

Interesting article at NY Times: https://nyti.ms/35660zB