Saturday, February 29, 2020

Roz aik cheez toot jaati hai...

(It takes a whole life to understand the depth of Jaun's this ghazal. The last shyr is haunting me since last 2 nights. Listen in his own voice below)

ایک ھی مژدہ صُبح لاتی ھے
دُھوپ آنگن میں‌ پھیل جاتی ھے

فَرش پَر کاغذ اُڑتے پِھرتے ہیں‌
میز پَر گَرد جَمتی جاتی ھے

سُوچتا ھُوں کہ اُس کی یاد آخر
اَب کِسے رات بَھر جَگاتی ھے

سوگَئے پیڑ جَاگ اُٹھی خوشبُو
زِندگی خَواب کیوں‌ دِکھاتی ھے

آپ اَپنے سے ہَم سُخن رِہنا
ہَمنشیں ! سانس پُھول جاتی ھے

کیا سِتم ھے کِہ اَب تِری صُورت
غور کَرنے پِہ یاد آتی ھے

کون اِس گھر کی دیکھ بَھال کَرے
روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ھے 

جون ایلیا


Thursday, February 13, 2020

Seen unseen

(said simply but hit me hard as came at the moment I needed as learning)
کیا تم نے اللہ کو دیکھا؟ -
 ہاں بارہا -
کب ؟ -
 جب بھی وہ میری پردہ پوشی کرتا ہے، رزق دیتا ہے، اور مجھے عافیت سے رکھتا ہے۔ -

Sunday, February 02, 2020

2 Jin Ki Kahani

Jab hum chote the to dadi ghar ke aangan main hume jin, tote, badshah, shahzadi wagera ki kahanian sunatin..

Ooper taaron se bhara khula aasman aur neeche dadi ki god - aur mashoor ker dene wali kahanian 
 - kisi jannat se kum na thin.

Dadi hume 2 Jin ki kahani sunati:

"Aik gaun main aik baRa zalim jin rehta tha - Sab us se darte - Jin bara kamina tha - Har kisi ko khub tang kerta - Aik din us gaun main aik bohat hi Qavi-haikal aur bohat baRa dusra Jin aa gaya"

 ~ Is kahani ki theme pe dadi hume kai kahanian sunati

Magar har kahani ke aakhir main baRa jin, zalim jin ko zinda choR deta. 

Hamara baRa ji chahta ke baRa jin - zaalim jin ko maar ke kha jaaye. Hum dadi se zid kerte ke - aap zalim jin ko maar dain.. aur dadi hamare sir pe haat pher ke kehti -

"Jub insaan taqatwar aur bohat uncha ho jaaye - to us ke liye zaroori ho jaata hai - ko woh rahemdil ho jaaye".

 - Dil to aaj bhi yahi kerta hai ke zalim jin maara jaaye magar apne khandan ke bachhon ko jab kahani sunata hun to zalim jin ko baksh deta hun...ke kahani ka sabaq ziyada zaroori hai!!

Saturday, February 01, 2020

ایک واقعہ


:ایک معلمہ کہتی ہیں -
میں نے طالبات کی ایک ٹیم کو سال کے آخر میں ایک پروگرام میں انکی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنے کیلیے ٹرینڈ کیا   تیاری اور ریہرسل کے مختلف 
مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آ گیا 

 نظم شروع ہوئی 

مگر انکی اس خوبصورت کارکردگی پر اسوقت پانی پھر گیا جب ایک بچی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھ رہی تھی اچانک اپنے ہاتھ، جسم اور انگلیوں کو حرکت دینے لگی اور اپنا منہ کسی کارٹون کے کیریکٹر کیطرح بنانے لگی. 
اسکی ان عجیب وغریب حرکتوں کیوجہ سے دوسری تمام بچیاں پریشان ہو گئیں 

:معلمہ کہتی ہیں 
میرا جی چاہا کہ میں جاکر اس بچی کو ڈانٹ پلاؤں اور اسے تنبیہ کروں کہ وہ 
ڈسپلن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے  مجھے اس پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ میں اسے سختی کے ساتھ ان بچیوں سے کھینچ کر الگ کر دوں  لیکن جوں جوں میں اس کے قریب جاتی وہ پارے کیطرح چھٹک کر مجھ سے دور ہو جاتی  
اسکی یہ حرکتیں بڑھتی گئیں اور وہ سارے لوگوں کی نظر کا مرکز بن گئی 
 وہاں موجود تمام خواتین اسکی ان حرکتوں پر زور زور سے ہنس رہی تھیں 

میری نظر پرنسپل پر پڑی جنکی پیشانی مارے شرمندگی کے پسینے سے شرابور تھی  وہ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور مجھ سے کہنے لگیں 
اس بدتمیز اور بیہودہ لڑکی کو سکول سے نکالنا ضروری ھے  میں نے بھی انکی اس بات کی تائید کی 

لیکن ایک چیز نے ہم سب کی نظروں کو متوجہ کیا کہ اس پورے وقفے میں اس بچی کی ماں کھڑی ہو کر اپنی بچی کی ان حرکتوں پر تالی بجاتی رہی، گویا وہ اسکی حوصلہ افزائی کر رہی تھی کہ وہ اپنا یہ فضول کام جاری رکھے 

جیسے ہی نظم ختم ہوئی  میں جلدی سے اسٹیج کیطرف بڑھی اور اس لڑکی کو زور سے پکڑ کر کھینچا اور بولی 
تم نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھنے کے بجائے یہ اول جلول حرکتیں کیوں کی؟ 

:وہ بولی  
اسلیے کہ پروگرام میں میری ماں بھی موجود تھی  مجھے اسکے اس ڈھٹائی بھرے جواب پر بڑی حیرت ہوئی. 

:لیکن مجھے اسوقت بڑا دھچکا لگا جب اسنے آگے یہ کہا 
میری ماں بول اور سن نہیں سکتی 
میں نے گونگے لوگوں کی زبان میں اس نظم کا ترجمہ اپنی ماں کے لیے پیش کیا تاکہ دیگر تمام بچیوں کی ماؤں کیطرح میری ماں بھی اپنی بیٹی کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کر سکے  

جیسے ہی اسنے یہ وضاحت کی وہ دوڑ کر اپنی ماں کیطرف بڑھی اور اسکے 
گلے لگ کر زار و قطار رونے لگی. 
جب وہاں موجود سارے لوگوں کو حقیقت معلوم ہوئی تو سارا ہال سسکیوں سے
 گونج اٹھا 

واقعے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ھے کہ پرنسپل نے اس لڑکی کو اسکول سے نکالنے کے بجائے اسے انعام سے نوازا اور اسے "مثالی طالبہ" 
کا خطاب دیا 

 وہ لڑکی جب وہاں سے نکلی تو سر اٹھا کر خوشی سے اچھلتے ہوئے جا رہی تھی 

بعض مواقع پر جلدبازی میں رد عمل ظاہر مت کیجیے، 
دوسروں پر حکم لگانے میں جلدی سے کام مت لیجیے 

محض بدگمانی کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، 
ملنا جلنا کم کرتے ہیں،  رشتے ختم کر لیتے ہیں. 

اللہ سے لوگوں کے ساتھ حسنِ ظن کی توفیق مانگیے کہ اسی میں دلوں کا سکون اور سینوں کی سلامتی ھے.