گئے وقتوں میں اخروٹ کے درخت کی لکڑی سے منبر بنائے جاتے تھے کیوں کہ اس کی لکڑی مضبوط اور پائیدار ہوتی اس پھل دار درخت کا سایہ بھی کافی گھنا ہوتا ہے ۔
دوسری طرف چنار کا درخت ہے جس سے دار (پھانسی گھاٹ) بنائے جاتے تھے۔ اس درخت پہ کوئی پھل نہیں لگتا ۔
ایران کے مشہور ترک نژاد شاعر شہریارؔ نے ان دو درختوں کی آپسی بحث کو کیا ہی خوب شعری صنف میں ڈھالا ہے:
گفت با طعنه منبری به چنار:
سرفرازی چی میکنی؟ بی بار
منبر نے طعنہ بھرے لہجے میں چنار کے درخت سے کہا:
اے بے پھل کے درخت! کس زعم میں اپنی گردن اکڑائے کھڑے ہو؟
نه مگر ننگی ھر درختی تُو؟
کز شما ساختند چوبی دار؟
تمھیں نہیں لگتا کہ درختوں کی برادری میں تم باعث ننگ و بد نامی ہو ؟
کہ تم سے صرف پھانسی گھاٹ ہی بنائے جاتے ہیں.
پس بر آشفت آن درختِ دلیر
رُو به منبر چنین نمود اخطار گفت
اس دلیر درخت کو بہت غصہ آیا، اس نے منبر کی جانب اپنا رخ موڑ کے کہا،
گر منبرِ تُو فائدہ داشت
کارِ مردم نه می کشید به دار
اگر تمہارے منبر اتنے ہی فائدہ مند ہوتے تو لوگوں کو پھانسی سے جھولنے کی نوبت ہی نہ آتی.
رابعہ خرم درانی کی تحریر