When Parizaad ran on TV last year, I was not aware of it. I got a text from an old childhood friend from Scotland to watch it. I asked him: "Why?"
He replied: "Hum sab ki kahani parizaad jesi hai."
(Reminded a lot of episodes from my previous life in Pakistan)
حسن کے جزیروں میں روپ کے کناروں پرریشمی اندھیرے ہیں، سُرمئی اُجالے ہیںایک ناز آفریں دل پر قبضہ جمائی بیٹھی ہےجس کی جھیل آنکھوں میں دو نیل بوں سے پیالے ہیں
نا پوچھ پری زادوں سے یہ ہجر کیسے جھیلا ہےیہ تن بدن تو چھلنی ہے اور روح پر بھی چھالے ہیںکیسے جان پاؤ گے؟ عشق میں کیا گزری ہے؟کتنے زخم کھائے ہیں؟ کتنے درد پالے ہیں؟
سائیاں وےسائیاں وےسائیاں وے
خواہشوں کے جنگل میں حسرتوں کے بستر پرجسم تو گلابی ہیں اور دل سے کالے ہیںمیں دھوپ کا پجاری ہوںمیں لفظ کا بھکاری ہوںلیکن جہاں میں بستا ہوں، وہاں مندروں پہ تالے ہیں
کیا عشق وہ نبھائیں گے؟کیا حسن کو سراہیں گے؟تاریک جن کے چہرے ہیںمقدّروں پہ جالے ہیں
ہیں دشمنوں سے کیا شکوہ؟ کیا گلہ رقیبوں سے؟یہ سانپ آستینوں میں ہم نے خود ہی پالے ہیں
نا پوچھ پری زادوں سے یہ ہجر کیسے جھیلہ ہے
یہ تن بدن تو چھلنی ہے اور روح پر بھی چھالے ہیں کیسے جان پاؤ گے؟ عشق میں کیا گزری ہے؟
No comments:
Post a Comment