(Traslation done by Hazrat Sufi Tabassum)
من آن ترک طناز را می شناسم
من آن شوخ بد ساز را می شناسم
اس ستمگر، بتِ طنّاز کو پہچانتا ہوں
اس کی بے مہریِ انداز کو پہچانتا ہوں
شبم تازہ شد جان بدشنام مستی
تو بودی، من آواز را می شناسم
کل عجب کیف میں اک مست تھا دشنام طراز
تو ہی تھا، میں تری آواز کو پہچانتا ہوں
بہ بینید تا می توانید در دی
کہ من آن سر انداز را می شناسم
اس کی اس سادگیِ ناز سے بچ کر رہنا
اس کے شرمیلے سے انداز کو پہچانتا ہوں
نہ بینم بسویش ز بیم دو چشمش
کہ آن ھر دو غماز را می شناسم
اس کے چہرے پہ نظر ڈالتے ڈر لگتا ہے
اس کے دو دیدۃ غماّز کو پہچانتا ہوں
ز من پرس ذوق سخن ھای خسرو
کہ من آن رہ و ساز را می شناسم
پوچھ مجھ سے کہ ہے کیا ذوقِ سخن خسرو کا
اس کی میں طرزِ سخن ساز کو پہچانتا ہوں
اردو ترجمہ: صوفی تبسم
2 comments:
ماشا اللہ صوفی صاحب اپنا کامال رکھتے تھے میں جب گورنمنٹ کالج کے نیو ہوسٹل میں رہتا تھا تو وہ ہمارے وارڈن تھے اور ہم ان کی بڑی شخصیت سے واقف تھے ان دنوں وہ پروفیسر تھے
Uncle: I agree. He was a genuine human being and a giant literate.
He did not get his true share of appreciation.
Post a Comment