The following is considered the hallmark poem of Ahmad Nadeem Qasmi. Reportedly was written when a student at the National College of Arts, Lahore made his sculpture. The photo was taken at that moment and history and poem both were saved.
پتھر - احمد ندیم قاسمی
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
ایک لمحے کو ٹھہر میں تجھے پتھر لا دوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کا پتھر ترے کام آئے گا
سرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دنیا
یا وہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
جس میں صدیوں کے تحیر کے پڑے ہوں ڈورے
کیا تجھے روح کے پتھر کی ضرورت ہوگی
جس پہ حق بات بھی پتھر کی طرح گرتی ہے
اک وہ پتھر ہے جو کہلاتا ہے تہذیب سفید
اس کے مرمر میں سیہ خون جھلک جاتا ہے
ایک انصاف کا پتھر بھی تو ہوتا ہے مگر
ہاتھ میں تیشۂ زر ہو تو وہ ہاتھ آتا ہے
جتنے معیار ہیں اس دور کے سب پتھر ہیں
جتنی اقدار ہیں اس دور کی سب پتھر ہیں
سبزہ و گل بھی ہوا اور فضا بھی پتھر
میرا الہام ترا ذہن رسا بھی پتھر
اس زمانے میں تو ہر فن کا نشاں پتھر ہے
ہاتھ پتھر ہیں ترے میری زباں پتھر ہے
ریت سے بت نہ بنا اے مرے اچھے فن کار
2 comments:
Thanks for sharing
I was a student in those days when persons like Ahmed Nadeem Qasmi were teachers in Panjab University Watched them walking around The writers of that kind and poets etc would sit for long times sipping coffee in the Coffee House on The Mall just outside Anarkali
Unfortunately, the classic literary cloud has evaporated with nothing to replace except low-quality writings...
Post a Comment