از آبِ عدم تُخمِ مِرا کاشتہ اند
واز آتشِ غم روحِ مَن افراشتہ اند
سرگشتہ چو باد دمبدم گردِ جہان
تاخاکِ مَن از چہ جائی برداشتہ اند
عدم کے پانی سے میرا بیج بویا گیا۔اور غم کی آگ سے میری رُوح بنائی گئی۔
مَیں دُنیا مِیں ہَوا کی طرح سرگرداں پِھر رھا ھُوں۔معلوم نہیں کہ میری خاک کہاں سے لائی گئی ھے۔
(مطلب یہ کہ انسان کا خمیر معلوم نہیں کہ کس مٹی سے بنایا گیا ھے کہ اُسے ایکدم آرام نہیں۔چند روزہ زِندگی ھے اور وہ بھی غم مِیں گُزرتی ھے۔گویا آدمی غم و عدم کا مجموعہ ھے۔)
(عُمر خیام)
No comments:
Post a Comment