مولانا ابوالکلام آزاد رح، غبار خاطر میں فرماتے ہیں
وہ چینی چائے جس کا عادی تھا، کئی دن ہوئے ختم ہوگئی۔ مجبورا ہندوستان کی اس سیاہ پتی کا جوشاندہ پی رہا ہوں تعبیر و تسمیہ قاعدے کے بموجب لوگ چائے کے نام سے پکارتے ہیں اور دودھ ڈال کر اس کا گرم شربت بنایا کرتے ہیں۔
میں چائے کو چائے کے لئے پیتا ہوں، لوگ دودھ اور شکر کے لئے پیتے ہیں
چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جارہی ہے لیکن وہاں کبھی کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں گزرا کہ اس جوہر لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جاسکتا ہے۔ (ہمارے) لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں، کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔
مولانا آزاد رح حیات ہوتے تو پاکستان کے گلی کوچوں میں دودھ پتی کی نہریں بہتے دیکھ کر سخت کڑھتے
(Maulana Abul Kalam Azad in his book Gubare Khatir)
1 comment:
Writers can give a different/m ore pleasant air to a completely ordinary thing and then also I heard this verse is for chai and not sharab
Chhuti nahiN yeh zalim munh say lagi huiee
A writer who is known by Abulkalam Name can make an ordinary thing look so different
And yes he is very true in what he has said here Thanks I enjoyed it
Post a Comment