Following came to me in a forward. It is written by a person named Abdul Khaliq Butt. I enjoyed it. it is worth sharing.
لفظ ’عید‘ کا مطلب ہے ’جو بار بار آئے‘۔ اسی سے لفظ ’وعدہ‘ اور ’وعید‘ بھی ہے۔ ان دونوں لفظوں میں لوٹ کر آنے کا تصور موجود ہے۔ چونکہ خوشی کا یہ تہوار ہر سال لوٹتا یا ’عود‘ کرتا ہے اس لیے ’عید‘ کہلاتا ہے۔
رہی بات ’ اضحیٰ‘ کی تو اس کے معنی ’قربانی کے جانور‘ کے ہیں۔ دراصل یہ لفظ ’اُضحٰیہ‘ سے نکلا ہے جو عید پر ذبح کی جانی والی بکری کو کہتے ہیں۔ یوں عید الاضحیٰ کا مطلب ہوا خوشی کا وہ تہوار جس پر جانور ذبح کیے جائیں۔
نور الغات والے مولوی نور الحسن کے مطابق ’عید الاضحیٰ‘ لکھنا درست ہے۔ اس عید الاضحیٰ کو ’بقرہ عید‘ بھی کہتے ہیں۔ ’بقرہ‘ عربی میں گائے کو کہتے ہیں اور اس عید پر گائے بھی قربان کی جاتی ہے شاید اس لیے اسے ’بقرہ عید‘ بھی کہہ دیتے ہیں۔
بے شک اس عید پر ’بکرے‘ بھی کٹتے ہیں مگر اس رعایت سے اسے ’بکرا عید‘ کہنا درست نہیں، ورنہ یہ سلسلہ چل نکلا تو ’دنبہ عید اور مینڈھا عید سے ہوتا ہوا اونٹ عید‘ تک پہنچ جائےگا۔ پھر جو غدر مچے گا اس کا تصور آپ خود کرلو۔
جانور ذبح کرنے والے کو عام طور پر ’قصائی‘ لکھا جاتا ہے، جب کہ بڑے محقق لکھ گئے ہیں کہ درست لفظ ’قسائی‘ ہے، جو قساوت یعنی سنگدلی سے نکلا ہے۔
ہندوؤں میں گوشت فروش کو ’کھٹیک‘ کہتے ہیں، شاید اس لیے کہ وہ جانور کی گردن ’کھٹ‘ سے اڑا دیتا ہے۔ واللہ اعلم
گائے سے یاد آیا کہ اسے سنسکرت میں ’گاؤا‘ کہتے ہیں۔ اسی سے ’راؤ‘ کے وزن پر ’گاؤ‘ اور ’رائے‘ کے وزن پر ’گائے‘ ہے۔ اس کی ایک تخفیفی صورت ’گؤ‘ بھی ہے۔ اسی ’گؤ‘ سے ’گوپال‘ یعنی گائے پالنے والا اور ’گوالا‘ یعنی گائے والا کی ترکیبیں بنی ہیں۔
چونکہ حرف ’گ‘ اور ’ک‘ اکثر موقعوں پر ایک دوسرے سے بدل جاتے ہیں لہٰذا ہندی کا ’گاؤ‘ انگریزی زبان میں Cow (کاؤ) ہوگیا ہے۔ اس صوتی تبدیلی کی ایک مثال لفظ ’نکہت‘ بھی ہے جسے ’نگہت‘ بولا اور لکھا جاتا ہے۔
عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں اکثر موقع پر حرف ’ن‘ کے ساتھ ’ب‘ آجائے تو ’میم‘ کی آواز دیتا ہے۔ اسے عربی کے ’منبر‘ اور فارسی کے ’گنبد‘ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب لفظ ’دنبہ‘ پر غور کریں نام کا مطلب خود ہی ظاہر ہوجائے گا۔
لفظ ’دنب‘ کا تلفظ ’دُم‘ ہے، چونکہ زیرِ بحث جانور کی دُم خاصی چوڑی چکلی ہوتی ہے لہٰذا اس نسبت سے اسے ’دنبہ‘ پکارا جاتا ہے۔
دنبے ہی کا ہم قبیلہ ایک مویشی’ بھیڑ‘ ہے۔ اس کے نر کو بھیڑا اور مینڈھا کہتے ہیں۔ یہ بات ہمیں بہت بعد میں پتہ چلی۔ خیر سوال کیا جا سکتا ہے کہ پھر ایک خون خوار (خون پینے والا) جانور کو بھیڑیا کس حساب میں کہتے ہیں؟
عرض ہے کہ بھیڑیا چونکہ بھیڑوں کے گلوں پر حملہ آور ہوتے ہیں لہٰذا بھیڑ کی نسبت سے اسے ’بھیڑیا‘ پکارا گیا ہے۔
4 comments:
Very informative thanks for sharing
I like linguistics One addition In Punjab Khateek is one who deals with cleaning and preparing animal skin
While going to school in village (one mile away from my residence village) I remember the awful stench from spread out animal skins belonging to the house of Khateeks outskirts of that village and my school was just a 50 yards further The smell made us run through that area with noses covered
You have probably seen these names of villages in my early blogs (2006-7)
Yes, uncle. I do read all your earlier posts regarding your school, college, migration, and childhood.
Thank you for clearing concept on KhaTeek"
Behtreen! This was quite interesting to read especially now when urdu is sadly mostly used as just a 'boli' for many of us.
Aly,
I was told that now Urdu is fastly dying in Pakistan more than anywhere else? Kids are fastly losing ability to write and even Urdu language. Is this true?
Post a Comment