Thursday, November 07, 2019

The chorus Girl (Chekhov short story)

Chekov is considered the best short story writer all across the world literature. Saadat Hasan Manto and others clearly copied his style. Apologies for posting the whole story. The beauty of this story is that each reader comes with his or her inference!

English version @ http://www.online-literature.com/anton_chekhov/1170/


طائفہ کی ہم نوا لڑکی

تحریر : انتون چیخوف (روس)
انگریزی سے اردو ترجمہ : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)

یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب وہ جوان اور خوبصورت دکھائی دیتی تھی ۔ اور تب اس کی آواز بھی سریلی تھی ۔ایک دن نکولائی پیٹرو وچ کولپاکوف اس کا مداح اس کے موسم گرما والی دیہاتی حویلی کے بیرونی کمرے میں بیٹھا تھا ۔ بہت گرمی اور حبس تھی ۔کولپاکوف نے ابھی ابھی کھانا کھایا تھا اور سستی سی گھٹیا شراب کی پوری بوتل پی تھی ۔سخت بیزاری اور طبیعت میں بوجھل پن محسوس کر رہا تھا ۔ دونوں بور ہو رہے تھے اور انتظار میں تھے کہ گرمی کی شدت کم ہو تو  چہل قدمی کے لیے جائیں ۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔کولپاکوف جس کا کوٹ اترا ہوا تھا ،پاؤں میں سلیپر تھے ، اچھل پڑا اور پاشا کی طرف استفہامی نگاہوں سے دیکھنے لگا ۔
"ضرور ڈاکیا ہو گا ،یا پھر لڑکیوں میں سے کوئی ہوگی ۔" گلو کارہ بولی ۔
کولپا کوف کو ڈاکیا یا پاشا کی سہیلیوں کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔لیکن پھر بھی احتیا طاً  وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا ۔جبکہ پاشا دروازہ کھولنے کے لیے  بھاگی ۔ لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ دروازے پر نہ تو کوئی ڈاکیا تھا نہ ہی ا س کی کوئی سہیلی بلکہ ایک اجنبی جوان اور خوبصورت  خاتون تھی ۔جس نے بیگمات جیسا لباس پہن رکھا تھا اور دیکھنے میں بھی کوئی مہذب خاتون دکھائی دیتی تھی۔  اس اجنبی خاتون کے چہرے کا رنگ پھیکا زرد ہو رہا تھا بھاری سانس لے رہی تھی جیسے وہ دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ کر آئی ہو ۔
"یہ سب کیا ہے  ؟ " پاشا نے پوچھا۔خاتون نے فوراً سے کوئی جواب نہ دیا اور قدم آگے بڑھایا،کمرے میں دیکھا اور ایسے بیٹھ گئی جیسے شاید کسی بیماری یا تھکاوٹ کے باعث کھڑی نہیں رہ سکتی ۔کافی دیر تک اس کے ہونٹ بولنے کی کوشش میں پھڑکتےرہے ۔اپنی نگاہیں اٹھا کر پاشا کو آنسوؤں سے بوجھل پلکوں کے ساتھ دیکھا اور بالآ خر اس نے پوچھا ۔
"کیا میرا خاوند یہاں ہے ۔"
"خاوند؟" پاشا نے سرگوشی کی۔یک دم وہ اتنی خوف زدہ ہو گئی ،اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے ۔
"کون خاوند  ؟"  اس نے دہرایا اور کانپنا شروع کر دیا ۔
"میرا خاوند نکولائی پیٹرو وچ کولپاکوف "
"نن۔۔۔۔نہیں ۔۔مادام ! میں کسی خاوند کو نہیں جانتی ۔“
ایک منٹ خاموشی سے گزر گیا ۔اجنبی خاتون نے بار ہا اپنا رومال ہونٹوں پر پھیرا ۔اور اپنی اندرونی کپکپاہٹ روکنے کے لئیے اپنا سانس روکا ۔جبکہ پاشا اس کے سامنے بے حس و حرکت کھمبا بنی کھڑی رہی اور اسے خوف اور حیرانی سے دیکھتی رہی ۔
"تو تمھارا یہ کہنا ہے کہ وہ یہاں نہیں ہے ؟" خاتون نے پوچھا ۔اس دفعہ خاتون کی آواز میں ٹھہراؤ تھا ۔اور وہ عجیب و غریب انداز سے مسکرا رہی تھی ۔
"میں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نہیں جانتی تم کس کی بات کر رہی ہو ۔"
"تم خوفناک حد تک گندی ہو۔ "  اجنبی خاتون بڑبڑائی————"ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ہاں تم بھیانک ہو۔میں خوش ہوں کہ آخر کار میں نے یہ سب کہ دیا  ۔"  پاشا کو محسوس ہوا کہ اس کالے لباس میں ملبوس ،غصے سے بھری آنکھوں اور سفید نازک بدن والی خاتون کے سامنے وہ خوفناک اور نظر انداز کئیے جانے کے لائق ہے ۔اسے اپنے پچکے ہوئے سرخ گالوں ،ناک پر چیچک کے داغ ،ما تھے پر پھیلی بالوں کی لٹ جو کبھی بھی پیچھے نہیں کی جا سکتی تھی پر شرمندگی محسوس ہوئی ۔اس نے سوچا اگر وہ زرا دبلی ہوتی ، اس کے چہرے پر میک آپ کی تہہ نہ ہوتی اور اس کی پیشانی پر بالوں کی لٹ نہ ہوتی تو وہ اپنا آپ چھپا لیتی ۔اور پتا نہ چلنے دیتی کہ وہ باعزت نہیں ہے ۔ اور وہ اس وقت اس اجنبی خاتون کے سامنے خوف زدہ اور شرمندہ کھڑی نہ ہو تی ۔
"میرا خاوند کہاں ہے ؟" وہ خاتون دوبارہ بولنا شروع ہوئی ۔”اگرچہ مجھے اس کے یہاں ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ رقم گم ہوگئی ہے ۔اور وہ نکولائی پیٹرو وچ کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے گرفتار کرنا چاہتے ہیں ۔یہ سب تمھاری وجہ سے ہو رہا ہے ۔" وہ خاتون کھڑی ہو گئی اور بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگی ۔پاشا نے اسے دیکھا وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔
“ وہ مل جائے گا اور اسے آج ہی گرفتار کر لیا جائے گا ۔“ خاتون نے یہ کہا اور سسکی بھری ۔اس سسکی سے اس کی پریشانی اور تکلیف ظاہر ہو رہی تھی ۔”میں جانتی ہوں اسے اس حالت میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے ۔ “ چھوٹی ذات کی خوفناک قابل نفرت ،زر پرست ،آوارہ مخلوق !“خاتون کے ہونٹ ہلے اور اس نے نفرت سے ناک سکیڑا  ۔
"میں با لکل بے بس ہوں ۔۔سنتی ہو ،کم ذات عورت ۔۔۔۔! میں بے بس ہوں ،تم مجھ سے زیادہ طاقت ور ہو لیک" وہ" ہے مجھے اور میرے بچوں کو تحفظ دینے کے لیے۔خدا سب دیکھ رہا ہے ۔وہ منصف ہے وہ تمہیں میرے ہر آنسو کے لیے جو میں نے جگ راتوں میں بہائے ہیں سزا دے گا ۔وہ وقت آئے گا جب تم میرے بارے میں سوچو گی ——!"
دوبارہ خاموشی چھا گئی - خاتون پھر کمرے میں ٹہلنے لگی اور اپنے ہاتھ ملنے لگی ۔پاشا مسلسل حیران و پریشان اسے دیکھتی رہی ۔اور کسی خطرناک وقوعہ کے انتظار میں رہی ۔
"مجھے اس بارے میں کچھ علم نہیں مادام ۔" اس نے کہا اور اچانک رونا شروع کر دیا ۔
"تم جھوٹ بول رہی ہو ۔“خاتون نے غصے سے اسے گھورتے ہوے کہا۔”میں سب جانتی ہوں ،میں بہت عرصے سے تمھیں جانتی ہوں ۔مجھے معلوم ہے پچھلے ایک مہینے سے وہ روزانہ تمھارے ساتھ ہوتا ہے ۔"
"ٹھیک ہے تو ۔۔۔۔۔؟ میرے بہت سے ملاقاتی ہیں لیکن میں کسی کو یہاں آنے پر مجبور نہیں کرتی ۔وہ جو چاہے کرنے میں آزاد ہے۔"
"میں تمھیں بتا رہی ہوں کہ انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ رقم غائب ہے اس نے دفتر سے رقم غبن کی ہے ،تمھارے جیسی مخلوق کی خاطر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھاری خاطر اس نے جرم کیا ہے ۔ سنو———“خاتون نے پر عزم لہجے میں پاشا کے سامنے کھڑے ہو کر کہا۔
"تمھارے کوئی اصول نہیں ۔ تم محض نقصان پہنچانے کے لئیے زندہ ہو ۔بس یہی تمھارا مقصد ہے ۔لیکن کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تم اتنا گر سکتی ہو ۔تم میں ذرا بھی انسانیت نہیں رہی ۔اس کے بیوی اور بچے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر اسے سزا ہوئی اور جلا وطن کیا گیا تو ہم فاقے مر جائیں گے ۔میں اور بچے ۔۔۔۔۔۔سمجھ آئی تمھیں ! لیکن ابھی بھی وقت ہے ہم اسے اور اپنے آپ کو اس تباہی اور بے عزتی سے بچا سکتے ہیں اگر میں آج انہیں نو سو روبلز دے دوں تو وہ اسے کچھ نہیں کہیں گے ۔صرف نو سو روبلز ! “
"کیا ۔۔  نو سو روبلز ؟" پاشا نے نرمی سے پوچھا ۔” میں ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں جانتی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے نہیں لیے۔"
"میں تم سے نو سو روبلز نہیں مانگ رہی ۔تمھارے پاس رقم نہیں ہے اور مجھے تمھاری رقم نہیں چاہیے ۔میں تم سے کچھ اور مانگ رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرد عموماً تمھارے جیسی عورتوں کو مہنگے تحفے دیتے ہیں ۔تم وہ چیزیں جو میرے خاوند نے تمھیں دی ہیں مجھے واپس کر دو ۔"
"مادام اس نے مجھے کبھی کوئی تحفہ نہیں دیا ۔" پاشا نے بات سمجھتے ہوۓ واویلا کیا ۔
"رقم کہاں گئی؟ اس نے اپنی ،میری اور دوسرے لوگوں کی رقم کہاں برباد کر دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب کدھر گئی ۔؟ سنو میں تم سے التجا کرتی ہوں ۔میں نے غصے میں تمھیں بہت برا بھلا کہا ،میں تم سے معافی مانگتی ہوں ۔تمھیں ضرور مجھ سے نفرت کرنی چاہیے ، میں جانتی ہوں ،لیکن اگر تم ہمدردی کر سکتی ہو تو اپنے آپ کو میری جگہ رکھ کر سوچو ! میں تمھاری منت کرتی ہوں ،مجھے چیزیں واپس کردو! "
"ہا۔۔مم۔۔۔  پاشا کندھے ا چکاتے ہوے بولی “مجھے بڑی خوشی ہوتی ،لیکن خدا گواہ ہے ،اس نے مجھے کبھی کوئی تحفہ نہیں دیا ۔ میرا یقین کرو ۔تاہم اس نے مجھے دو معمولی سی چیزیں دی ہیں ،اگر تم چاہو تو ۔۔۔۔"
پاشا نے سنگھار میز کا دراز کھینچا ،اس میں سے ایک کھوکھلا کڑا اور ایک پتلی سی انگوٹھی جس میں روبی لگا تھا نکالے ۔
"یہ لیں مادام ! " اس نے دونوں چیزیں خاتون کے سامنے کیں ۔
خاتون کا چہرہ سرخ ہو گیا ،کانپنے لگی اور بولی ۔” یہ کیا دے رہی ہو ؟ میں تم سے خیرات نہیں مانگ رہی ،بلکہ جو تمھارا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جو تم نے ناجائز طریقے سے  میرے خاوند سے بٹورہ ہے ۔۔۔۔۔وہ کمزور ناخوش بندہ ۔۔۔۔۔جمعرات کو جب میں نے تمھیں اپنے خاوند کے ساتھ بندر گاہ پر دیکھا تو تم بہت قیمتی بالوں کے کلپ اور کڑے پہنے ہوئے تھی ۔اس لیے میرے سامنے معصوم بننے کی ایکٹنگ نہ کرو ۔میں آخری بار تم سے پوچھ رہی ہوں ،تم یہ چیزیں مجھے دو گی یا نہیں ؟——؟ “
"تم بہت عجیب ہو ۔" پاشا نے ناراضگی سے کہا ۔ " میں تمھیں یقین دلاتی ہوں کہ اس کڑے اور انگوٹھی کے علاوہ تمھارے نکولائی پیٹرو وچ نے مجھے کچھ نہیں دیا ۔وہ میٹھے کیک کے علاوہ کبھی کچھ نہیں لایا۔"
"میٹھے کیک ! " اجنبی خاتون نے قہقہہ  لگایا ۔”گھر میں بچوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور یہاں تمھارے پاس میٹھے کیک۔ کیا تم تحفے واپس کرنے سے قطعی منکر ہو ؟۔"
کوئی جواب نہ پا کر خاتون بیٹھ گئی اور خلاء میں گھورنے لگی ۔سوچتے ہوئے بولی ۔”اب کیا کیا جا سکتا ہے ؟ اگر مجھے نو سو روبلز نہ ملے تو وہ تباہ ہو جائے گا ۔میں اور بچے بھی تباہ ہو جائیں گے ۔کیا میں اس حقیر عورت کو قتل کر دوں یا پھر میں اس کے سامنے گھٹنوں پر جھک جاؤں ۔؟"
خاتون نے رومال چہرے پر پھیرا اور سسکیاں بھرنے لگی ۔”میں تمھاری منت کرتی ہوں ۔“ پاشا نے اس اجنبی خاتون کو سسکیوں کے درمیان کہتے سنا ۔”دیکھو تم نے میرے خاوند کو تباہ و برباد کر دیا ۔اب اسے بچا لو ۔تمھیں اس کا کوئی خیال نہیں لیکن بچے ۔۔۔۔بچے ۔۔۔۔بچوں کا کیا قصور ہے ؟"
پاشا نے تخیل میں بچوں کو سڑک پر کھڑے بھوک سے کراہتے دیکھا اور وہ بھی سسکیاں بھرنے لگی ۔
"میں کیا کر سکتی ہوں مادام ؟تمھارا کہنا ہے کہ میں ایک حقیر عورت ہوں اور میں نے نکولائی پیٹرو وچ کو تباہ کیا ہے ۔میں خدا کو گواہ بنا کر تمھیں یقین دلاتی ہوں کہ میرے پاس اس کا دیا ہوا کچھ بھی نہیں ۔ہمارے طائفےمیں صرف ایک لڑکی ایسی ہے ،جس کا ایک امیر مداح ہے ،باقی ہم سب لڑکیاں بڑی مشکل سے گزارہ کرتی ہیں ۔ نکولائی پیٹرو وچ اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب آدمی ہے ۔اس لیے میں نے اسے یہاں آنے کی اجازت دی ۔ہم مہذب آدمیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ “
"میں تم سے پھر چیزیں مانگ رہی ہوں ۔میں رو رہی ہوں ،میں اپنی بےعزتی کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔اگر تم چاہو تو میں تمھارے آگے جھک جاؤں گی ۔اگر تمھاری یہی خواہش ہے تو !"
پاشا خوف سے چلائی ہاتھ ہلائے  اسے محسوس ہوا کہ یہ زرد رو خوبصورت عورت جو اتنے خوبصورت انداز میں میں بات کرتی ہے جیسے سٹیج پر ہو ،کہیں سچ مچ اس کے آگے جھک ہی نہ جائے صرف اور صرف اپنے فخر و غرور ،بلند مرتبہ کے باعث ا پنے آپ کو مہان اور پاشا کو حقیر ثابت کرنے کے لیے ———
" ٹھیک ہے میں تمھیں دیتی ہوں ۔"  پاشا نے آنکھیں صاف کرتے ہوۓ جذ باتی پن کا مظاہرہ کیا ۔”تاہم ان میں سے کچھ بھی نکولائی پیٹرو وچ کا نہیں ہے ۔یہ مجھے دوسرے لوگوں نے دی ہیں ۔"
پاشا نے  الماری کا اوپر والا دراز کھینچا ،ایک ڈائمنڈ کا کلپ ،ایک مرجان کا ہار ،کچھ انگوٹھیاں اور کڑے نکالے اور سب اس خاتون کو دے دیے ۔" اگر تم چاہتی ہو تو یہ لے لو ۔لیکن یہ کچھ بھی تمھارے خاوند کا نہیں ۔لے لو اور امیر ہو جاؤ ۔" پاشا خاتون کی اس کے آگے جھکنے والی دھمکی سے طیش میں آگئی ۔”اور اگر تم خاندانی عورت ہو اور اس کی قانونی بیوی ہو تو اسے اپنے پاس روک کے رکھو ۔ میں نے اسے نہیں بلایا ۔وہ خود میرے پاس آیا ہے ۔“خاتون نے اپنے بہتے آنسوؤں کے درمیان ان اشیاء کو جو اسے دی گئیں دیکھا اور ان کا جائزہ لیا ۔
" یہ وہ ساری چیزیں نہیں ہیں ،یہ پانچ سو روبلز سے زیادہ کی نہیں ہیں ۔"
پاشا نے فورالماری سے سونے کی گھڑی ،سگارکیس اور سٹڈ نکالے اور ہاتھ نچاتے ہوے بولی ۔ "اب میرے پاس کچھ نہیں ہے۔۔۔۔تم تلاشی لے سکتی ہو !"
ملاقاتی خاتون نے ایک آہ بھری ،کانپتے ہاتھوں سے ساری چیزیں رومال میں سمیٹیں اور بغیر کچھ کہے باہر نکل گئی ۔
دوسرے کمرے کا دروازہ کھلا۔کولپاکوف کمرے میں آیا وہ پیلا پڑ رہا تھا اور سر جھٹک رہا تھا جیسے اس نے کوئی بہت کڑوی چیز نگل لی ہو ۔ آنسو اس کی آنکھوں میں چمک رہے تھے۔
"تم نے مجھے کون سے تحفے دیے ہیں ؟" پاشا نے اس پر جھپٹتے ہوے پوچھا ۔
"تحفے ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کوئی بات نہیں ۔"  کولپاکوف بولا ،پھر اپنا سر جھٹکا۔”اُف میرے خدا ! وہ تمھارے آگے روئی اس نے اپنے آپ کو ذلیل کیا ۔"
"میں پوچھ رہی ہوں تم نے مجھے کون سے تحفے دئیے ؟ " پاشا چلائی ۔
"میرے خدا ! وہ ایک معزز خاتون اتنی مغرور اور اتنی پاک ۔۔۔۔۔وہ اپنے گھٹنوں پر جھکنے کے لیے تیار تھی ——اس ۔۔۔۔۔۔۔چھوکری کے آگے ۔اور یہ سب میری وجہ سے ہوا ۔“ اُس نے سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور کراہنے لگا ۔”میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے دور ہو جاؤ ۔۔۔تم حقیر چیز ۔"  پاشا سے دور پیچھے ہٹتے ہوئے وہ ناگواری سے چلایا، اور اپنے کانپتے ہاتھوں سے اسے پیچھے دھکیلا ۔”وہ تمھارے آگے جھک جاتی ،اوہو ،میرے خدا ! “
اس نے جلدی جلدی اپنا لباس درست کیا ۔پاشا کو نفرت و حقارت سے ایک طرف دھکیلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا اور باہر نکل گیا ۔
پاشا نیچے بیٹھ گئی اور زور زور سے رونے لگی ،اپنی چیزیں جذباتی کیفیت میں دے دینے پر پچھتا رہی تھی ۔اس کے جذبات مجروح تھے ۔ اسے یاد آیا کہ تین سال قبل ایک تاجر نے بلا وجہ اسے بری طرح پیٹا تھا اور وہ پہلے سے زیادہ بلند آواز میں رونے لگی ۔

No comments: