قرآن اگر شاعری نہیں ہے، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ وه شاعری ہے یا نہیں ہے، تب بهی وه شاعری سے زیاده ہے- وه تاریخ نہیں ہے اور نہ وه سوانح عمری ہے- وه انجیل کے پہاڑی کے وعظ کی طرح مجموعہ امثال نہیں ہے- وه مابعد الطیعاتی مکالمہ نہیں ہے جیسا کہ بدها کے سوتر میں پایا جاتا ہے- وه موعظت بهی نہیں ہے جیسا کہ افلاطون کے یہاں عاقل اور نادان کی مجلسوں میں پایا جاتا ہے- وه ایک پیغمبر کی پکار ہے- وه آخری حد تک سامی اور عربی ہے، اس کے باوجود اس میں ایسی معنویت ہے جو انتہائی آفاقی ہے اور وه اتنا مطابق وقت ہے کہ ہر زمانہ کی آوازیں اس کو ماننے پر مجبور ہیں، خواه وه اس کو چاہیں یا نہ چاہیں- اس کی آواز کی بازگشت محلوں اور صحراوں میں، شہروں اور بادشاہتوں میں سنائی دیتی ہے- پہلے وه اپنے منتخب دلوں میں عالمی فتح کی آگ سلگاتا ہے- اس کے بعد وه ایک ایسی تعمیری طاقت بن جاتا ہے جیسے کہ یونان اور ایشیا کی تمام تخلیقی روشنی مسیحی یورپ کی گہری تاریکیوں میں داخل هو جائے، اس وقت جب کہ مسیحیت صرف رات کی ملکہ کی حیثیت رکهتی تهی-
3 comments:
Gahay gahay iss qsim ki ibarat ghair muslim kay qalam say ya zaban say dekhnay men aati hay I have another person's similar note with me and of course short comments of this book are also seen by world known philosophers or thinkers etc. I will see if i find it and can post it here or part of it
It was written by a John Price in 1863 or something I noted it from a book Silk-alBayaan
I am adrais technically I cant do any better
Thank you..!
Post a Comment