بہت شاداب لیکن بے ثمر تھا
کسی ناراض موسم کا شجر تھا
وە صدیوں کا تھکا ہارا مسافر
جسے درپیش لا حاصل سفر تھا
وە اپنے آپ سے بچھڑا ہوا تھا
تلاشِ گمشدە میں در بدر تھا
بدن کہتا تھا کتنی داستانیں
ذباں چپ تھی کہ رسوائ کا ڈر تھا
وە سوچوں میں ستارے ٹانکتا تھا
کہ اسکی راکھ میں کوئ شرر تھا
مثالِ آئینہ تھیں اس کی آنکھیں
مگر اس کا زمانہ کم نظر تھا
وە ان دیکھے خدا کو مانتا تھا
فرشتوں سے زیادە معتبر تھا
خرد مندوں کے شہرِ بے ہنر میں
وە زندە تھا یہی اس کا ہنر تھا
دیا اسکا بجھا رہتا تھا عاجز
کسی آسیب کا شاید اثر تھا
No comments:
Post a Comment