Wednesday, November 01, 2017

Kabhi (abhi) hum Khubsurat the (hain)

If you have grown up in the 80s of Pakistan, you may know the song: Kabhi hum khubsurat the. It was written by Ahmad Shamim (here) and became a part of Pakistan's culture after rendered for a TV serial, teesrah kinara (Must be around 1976-78 as I was still in school)  by Nayyara Noor. The central theme of drama was taken from Russian-American novelist Ayn Rand’s novel ‘Fountainhead’. (It is said that writing this novel over a period of seven years left her insomniac and somewhat psycho?). It was a very artistic attempt on the PTV part and required a literate person like Rahat Kazmi (and his wife Saira Kazmi) to do the project.

Ahmad Faraz wrote a similarly beautiful reply to Ahmad Shamim.

Youtube link: https://youtu.be/4pWbD5X_7MM



"ابھی ہم خوبصورت ہیں"
کلام : احمد فراز
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہمارے جسم اوراقِ خزانی ہو گئے ہیں
اور ردائیں زخم سے آراستہ ہیں
پھر بھی دیکھو تو
ہماری خوشنمائی پر کوئی حرف
اور کشیدہ قامتی میں خم نہیں آیا
ہمارے ہونٹ زہریلی رُتوں سے کاسنی ہیں
اور چہرے رتجگوں کی شعلگی سے
آبنوسی ہو چکے ہیں
اور زخمی خواب
نادیدہ جزیروں کی زمیں پر
اس طرح بکھرے پڑے ہیں
جس طرح طوفاں زدہ کشتی کے ٹکڑوں کو
سمندر ساحلوں پر پھینک دیتا ہے
لہو کی بارشیں
یا خودکشی کی خواہشیں تھیں
اس اذیت کے سفر میں
کون سا موسم نہیں آیا
مگر آنکھوں میں نم
لہجے میں سم
ہونٹوں پہ کوئی نغمۂ ماتم نہیں آیا
ابھی تک دل ہمارے
خندۂ طفلاں کی صورت بے کدورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
زمانے ہو گئے
ہم کوئے جاناں چھوڑ آئے تھے
مگر اب بھی
بہت سے آشنا نا آشنا ہمدم
اور ان کی یاد کے مانوس قاصد
اور ان کی چاہتوں کے ہجر نامے
دور دیسوں سے ہماری اور آتے ہیں
گلابی موسموں کی دُھوپ
جب نو رُستہ سبزے پر قدم رکھتی ہوئی
معمورۂ تن میں در آتی ہے
تو برفانی بدن میں
جوئے خوں آہستگی سے گنگناتی ہے
اُداسی کا پرندہ
چپ کے جنگل میں
سرِ شاخِ نہالِ غم چہکتا ہے
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا دکھ
آبلہ بن کر تپکتا ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے حرف اپنے
زندہ آوازوں کی صورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہماری خوشنمائی رفِ حق کی رونمائی ہے
اسی خاطر تو ہم آشفتہ جاں
عشّاق کی یادوں میں رہتے ہیں
کہ جہ اُن پر گزرتی ہے وہ کہتے ہیں
ہماری حرف سازی
اب بھی محبوبِ جاں ہے
شاعری شوریدگانِ عشق کے وردِ زباں ہے
اور گلابوں کی طرح شاداب چہرے
لعل و مرجاں کی طرح لب
صندلیں ہاتھوں سے
چاہت اور عقیدت کی بیاضوں پر
ہمارے نام لکھتے ہیں
سبھی درد نا آشنا
ایثار مشرب
ہم نفس اہلِ قفس
جب مقتلوں کی سمت جاتے ہیں
ہمارے بیت گاتے ہیں
ابھی تک ناز کرتے ہیں
سب اہلِ قافلہ
اپنے حدی خوانوں پر آشفتہ کلاموں پر
ابھی ہم دستخط کرتے ہیں اپنے قتل ناموں پر
ابھی ہم آسمانوں کی امانت
اور زمینوں کی ضرورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں

5 comments:

Rida said...

بہت ہی خوبصورت ۔۔۔
کیا میں کاپی کر سکتی ہوں؟

Mystic said...

Absolutely! It all yours.
Actually, I was thinking of you while posting this - that at least one person will like it.

Rida said...

😊 out of words 😁

bsc said...

Beautiful indeed
main akser sochta hun ki Allah nay shaer ka demagh alag banaya hay hissas to buhut say loge hotay hain mager jisay yeh shaer loge un khiyalat ko alfaz ka jama pehnatay hain yeh un ki infiradi khusoosiyat hay
I am a bit older than eightïes or seventies culture. so thanks for keeping me "feeling young

mystic-soul said...

Uncle: As someone said: "Poetry is the highest form of literature"